Saturday, April 23, 2011

Dil Dharaknay ka sabab yaad aya - Nasir Kazmi

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

Monday, April 18, 2011

Aik Chotha sa larka - Ibne Inshaa


ايک چھوٹا سا لڑکا تھا ميں جن دنوں  
ايک ميلے ميں پہنچا ہمکتا ہوا

جي مچلتا تھا ايک ايک شے پر مگر
جيب خالي تھي کچھ مول لے نہ سکا

 لوٹ آيا ليے حسرتيں سينکڑوں
ايک چھوٹا سا لڑکا تھا ميں جن دنوں

خير محروميوں کے وہ دن تو گئے
آج ميلہ لگا ہے اسي شان سے

آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں

نارسائي کا اب جي ميں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا، الھڑ سا لڑکا کہاں

Tumhe Yaad ho na ho - Momin Khan Momin

 وہ جو ہم ميں تم قرار تھا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو
وہي يعني وعدہ نباہ کا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پيش تر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر 
مجھے سب ہے ياد ذرا ذرا تہمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

وہ نئے گلے وہ شکايتيں وہ مزے مرے کي حکايتيں
وہ ہر ايک بات پہ روٹھنا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کبھي بيٹھے سب ميں جو روبو تو اشارتوں ہي گفتگو
وہ بيان شوق کا بر ملا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتائے کو دم بہ دم
گلہ ملامت اقربا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کوئي ايسي بات اگر ہوئي کہ تمہارے جي کو بري لگي
تو بياں سے پہلے ہي بھولنا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کبھي ہم ميں تم ميں بھي چاہ تھي کبھي ہم ميں تم ميں بھي راہ تھي
کبھي ہم بھي تم سے تھے آشنا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

سنو ذکر ہے کئي سال کا کہ کيا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کيا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کہا ميں بات وہ کوٹھے کي مرے دے صاف اتر گئي 
تو کہا کہ جانے مري بلا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

وہ بگڑ وصل کي رات کا وہ نہ ماننا کسي بات کا
وہ نہيں نہيں کي ہر آن ادا تمہيں ياد ہو نہ ياد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
ميں وہي ہوں مومن مبتلا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

Ye Alam Shook Dekha na Jaye - Ahmed Faraz

يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
وہ بت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے
يہ کن نظروں سے تو نے آج ديکھا
کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے

ہميشہ کيلئے  مجھ سے بچھڑ جا
يہ منظر بارہا ديکھا نہ جائے
غلط ہے سنا پر آزما کر
تجھے اے بے وفا ديکھا نہ جائے

يہ محرومي نہيں پاس وفا ہے
کوئي تيرے سوا ديکھا نہ جائے
يہي تو آشنا بنتے ہيں آخر
کوئي نا آشنا ديکھا نہ جائے

فراز اپنے سوا ہے کون تيرا
تجھے تجھ سے جدا ديکھا نہ جائے